بلی کے بچوں کے سرپر کوئی خطرہ آپہنچتا ہے تو اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ اس وقت وہ بہت غصہ ور اور خوفناک ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں وہی کتا قریب پھٹکنے کی جرات کرے گا جو یا تو نہایت ہی احمق ہوگا یا پھر بڑا ہی دلیر۔ بلی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حملہ کردیتی ہے
پرندوں اور چوپایوں میں مامتا ایک ایسی عجیب قوت ہوتی ہے جو بچوں کی حفاظت کیلئے بعض کمزور سے کمزور اور ڈرپوک سے ڈرپوک جانوروں کو بھی بڑے دلیرانہ کام کرنے پرآمادہ کردیتی ہے۔ فرانسیس پٹ کا بیان ہے کہ اس نے اپنے خاندان اور بچوں کی حفاظت کی خاطر اپنی آنکھوں سے ایک خرگوش کو ایک قسم کی جنگلی بلی ”اسٹوف“ سے لڑتے اور مقابلہ کرتے دیکھا۔ اسی طرح اس نے ایک مرتبہ ایک چھوٹے سے پرندے مرلن کو ایک ایسے پہاڑی کوے پر حملہ کرتے دیکھا جو اس کے گھونسلے کے بالکل قریب آگیا تھا‘ چنانچہ اس نے کوے کا تعاقب کرکے اس کو مار بھگایا۔اسی طرح اُلو اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ فرانسیس پٹ نے ایک ایسے ہی واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کا بیان ہے ایک مرتبہ وہ جنگل میں ایک درخت کے کھوکھلے تنے میں بیٹھے ہوئے الو کے بچوں کو دیکھنے کی کوشش کررہا تھا کہ یکایک اس کی پیٹھ پر ایک زور کا تھپڑ پڑا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر اسے وہاں کوئی چیز نظر نہ آئی چنانچہ وہ دوبارہ اسی کھوکھلے تنے کے اندر دیکھنے کیلئے جھکا۔ اچانک پیٹھ پر پھر وہی زور کا تھپڑ پڑا۔ اس نے دیکھا تو ایک الو نظر آیا۔ اس پر حملہ اسی الو نے کیا تھا۔ اس مشاہدے کے بعد فرانسیس پٹ جب وہاں سے واپس ہوا تو اس کے دل میں ماں کی مامتا کا احساس موجزن تھا۔ الو کی مامتا یقینا قدر کے لائق تھی ۔
چوپایوں میں بلی کی مامتا سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دودھ پلانے والے حیوانوں میں بلی سے زیادہ کوئی حیوان بہادری‘ جرات اور ہمت سے اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرتا۔ وہ اپنے بچوں کی نگرانی اور حفاظت بڑے اہتمام سے کرتی ہے۔ ان کے ساتھ گوناگوں کھیلتی ہے‘ ان کو پیار سے چاٹتی ہے اور ازراہ محبت دانتوں سے پکڑتی ہے لیکن جب بچوں کے سرپر کوئی خطرہ آپہنچتا ہے تو اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ اس وقت وہ بہت غصہ ور اور خوفناک ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں وہی کتا قریب پھٹکنے کی جرات کرے گا جو یا تو نہایت ہی احمق ہوگا یا پھر بڑا ہی دلیر۔ بلی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حملہ کردیتی ہے اور اتنے زور سے اپنے خوفناک زہریلے پنجے مارتی ہے کہ شاید ہی کوئی کتا اس کے حملے کی تاب لاسکے۔ یہ حالت تو محض ایک معمولی اور گھریلو پالتو بلی کی ہے۔ اس سے جنگلی بلیوں کے غصے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بلی کے خاندان کے دوسرے ارکان شیر‘ چیتا اور تیندوا وغیرہ بھی ہیں لیکن وہ اس گروہ کے جانوروں میں اپنے ڈیل ڈول اور جسامت کے لحاظ سے دلیری اور جرات میںقطعا ایسے نہیں ہوتے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک شیرنی یا چیتے کی مادہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتے وقت بے حد خطرناک بن جاتی ہے لیکن اس کی یہ خطرناکی قدوقامت اور قوت و شجاعت کے لحاظ سے بلی کے مقابلے میں کہیں کم ہوتی ہے۔
جہاں تک چھوٹے‘ غیرمحفوظ اور سامان مدافعت سے محروم جانوروں کا تعلق ہے‘ وہ دوسرے طاقتور حیوانوں سے زیادہ دلیر اور نڈر ثابت ہوتے ہیں۔ چراگاہوں میں چرنے والی بھیڑیں اور بکریاں اتنی بیوقوف نہیں ہوتیں کہ اپنے بچوں کی حفاظت نہ کریں۔ ایک بکری جو عام طور پر کتوں سے جان بچانے کیلئے بھاگتی پھرتی ہے اور اپنے سر اور سینگوں سے دشمن کا مقابلہ کرتی ہے اور بعض اوقات اس کی پسلیاں تک توڑ ڈالتی ہے۔ یہ سب اس کی مامتا کے جذبے کا کرشمہ ہے ۔حیوانات اپنے بچوں کی حفاظت اور بھی کئی طریقوں سے کرتے ہیں وہ ان کیلئے بڑے مضبوط‘ محفوظ اور خوبصورت گھونسلے یا گھر بناتے ہیں۔ اپنی وضع قطع‘ مضبوطی اور حفاظت کے لحاظ سے ایسے گھونسلے اور گھر دودھ پلانےوالے جانوروں میں نہیں پائے جاتے۔
حیوانوں کی مامتا بعض اوقات نہایت ”خطرناک صورتوں“ میں بھی ظاہر ہوتی ہے خصوصاً اس وقت جب حیوانوں پر بہت زیادہ خوف اور دہشت طاری ہوجاتی ہے چنانچہ بعض بڑے حیوانات ایسی حالت میں اپنے ہی بچوں کو مار ڈالتے ہیں۔ فیرانسیس پٹ کا بیان ہے کہ اس نے خود ایک بار کھیت میں رہنے والے ایک چوہے کو دیکھا۔ اس نے اپنے بچوں کو ایک ایک کرکے کاٹ کاٹ کر مارڈالا۔ اسی طرح کے اور بھی بہت سے واقعات کتے‘ خرگوش‘ بچھو اور دوسرے دودھ پلانے والے ایسے جانوروں کے بارے میں سنے گئے ہیں جنہوں نے خطرے کے وقت اپنے بچوں کو مار ڈالا۔ خیال ہے کہ طاقتور دشمن سے اپنے بچوں کو بچانے کا جذبہ اور احساس انہیں ایسی لرزہ خیز حرکتوں پر مجبور کردیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں